خزاں سےدل پریشاں ہےخزاں دل کو نہ بھائے ہے خدا فصلِ بہار آئے یہی دل لو لگائے ہے کہے ہے یار مجھ کو وہ مگر گُل یوں کھلائے ہے. مرے دل کو دُکھائے ہے ستا ئے ہے رلائے ہے. پڑے جب جب ضرورت تو مِرے درپہ وہ آئے ہے. ضرورت گر نہ ہوئے تو نہ آئے ہے نہ جائے ہے. ذرا سی ہو خطا مجھ سے تو شوروغل مچائے ہے. بھلائی ہم کریں بھی تو نظر اس کو نہ آئے ہے سزا دینی ہے گر مجھ کو تو میری جان ہی لے لے نمک یوں زخم پررکھ کرمصیبت کیوں وہ ڈھائے ہے مہارت ہے نہیں پھر بھی تسلی کے لئے قاصر. غمِ دل یوں سنائے ہے غزل یوں گنگنائے ہے. #ہارون قاصر #غزل