چاہا ہے اِسی رنگ میں لیلائے وطن کو تڑپا ہے اِسی طور سے دل اُس کی لگن میں ڈھونڈی ہے یوں ہی شوق نے آسائشِ منزل رُخسار کے خم میں کبھی کاکُل کی شِکن میں اس جانِ جہاں کو بھی یوں ہی قلب و نظر نے ہنس ہنس کے صدا دی کبھی رو رو کے پکارا پورے کیـے سب حرفِ تمنا کے تقاضے ہر درد کو اُجیالا ہر اک غم کو سنوارا واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جُنوں کا تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جَرس کی خیریتِ جاں راحتِ تن صحتِ داماں سب بھول گئیں مصلحتیں اہلِ ہَوس کی اس راہ میں جو سب پہ گُزرتی ہے وہ گُزری تنہا پسِ زنداں کبھی رسُوا سرِ بازار گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشۂ منبر کڑکے ہیں بہت اہلِ حَکم بر سرِ دربار چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دُشنام چُھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت اُس عشق نہ اِس عشق پہ نادم ہے مگر دل ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت (فیض احمد فیض، دو عشق) ©Osama Azam Dou Ishq | #FaizAhmedFaiz