بیٹے نے جب رکھا قدم اپنے اندر بےچین ہوگٸ ماں دیکھ کر صفتِ قلندر تنہا جو بیٹھا تھا اِک دِن مستیِ غم میں تو پوچھ لیا ماں نے کیا ہوگیا میرے پِسَر جو ہنستا تھا، کھیلتا تھا، بولتا تھا تو اب قریب ہوکر بھی کہاں کھو گیا ھے جِگَر سختی تھی تیرے لہجے میں پہلے وہی زُبان اب نرم ہوگٸ ہے کیونکر کھانا پینا بھی کم کردیا ہے تو نے کیا مرض ہے تجھے بتا اپنی ماں کو اَزبَر دل جو پہلے ہی لبریز تھا غم سے دیکھ کر ماں کے آنسو رونے لگا تڑپکر برسوں سے مرضِ قلب میں تھا مُبتلا اِک حکیم مِل گیا ہے مُجھ کو اَکبر پوچھتی ہو میری خاموشی کا راز تو سُنو ہر سونامی سے پہلے ہوتا ہےخاموش سمندر یہی سُننا تھا کہ بولی کوٸی فکر نہیں اب کہ بیٹے ہی تھے کسی ماں کے سکندر و صفدر MAAN aur IBTADA E SAFAR #WhenShahzaibWrites