غزل شاعری اب غضب کی کرتے ہو لگتا ہے تم کسی پہ مرتے ہو لطف اندوز ہو کناروں سے بیچ دریا میں کیوں اترتے ہو کوئی تو دیکھتا تمہیں ہوگا روز اتنا جو تم نکھرتے ہو آج مجھ کو ذرا بتا بھی دو کس کی خاطر یہ تم سنورتے ہو تھام لو ہاتھ ان کا تم اسحاق عشق ہے پھر بھی اتنا ڈرتے ہو محمد اسحاق رضوی