White کل کی یادوں کو تہہ در تہہ لگ کے سینے سے دل کے واسط میں پرانی سی عمارت لگتی ہے وہ روٹھ جانا اور منانا خود کے خیالوں میں ذہن اور سوچ میں کوئی شرارت سی لگتی ہے یہ بدن جل کے ناسور ہوا اور پھر سلگنے لگا ڈھنڈی کوکھ میں نئی حرارت سی لگتی ہے سوچ کے دروازے پر ہے لگتا غرور کا کوئی لمہ اپنے ہر فیصلے پر کوئی مہارت سی لگتی ہے چاند تاریک رات میں بادلوں کے بیچ نکلتا ہے ان آنکھوں کے لیے کوئی زیارت سی لگتی ہے گھر کے ارگر گرد گھوم کر کھینچ کے نقشہ اپنی امیدوں میں کوئی ریاست سی لگتی ہے اب بھی باز نہیں آیا گناہ کی چار دیواری سے شاید خدا کی طرف کوئی ریایت سی لگتی ہے ثواب کی امید میں جب کوئی نیک کام ہوتا ہے نیت میں جنت کے عوض تجارت سی لگتی ہے یہ الفاظ ذہن کے دیوار پر خود عکس ہوتے ہیں راحت کسی نئی غزل کی عبارت سی لگتی ہے ©Ashraf Qureshi #GoodMorning