سمندر چاندنی میں رقص کرتا ہے پرندے بادلوں میں چھپ کے کیسے گنگناتے ہیں زمیں کے بھید جیسے چاند تاروں کو بتاتے ہیں ہوا سرگوشیوں کے جال بُنتی ہے تُمہیں فرصت ملے تو دیکھنا لہروں میں اِک کشتی ہے اور کشتی میں اِک تنہا مسافر ہے مسافر کے لبوں پر واپسی کے گیت لہروں کی سبک گامی میں ڈھلتے داستاں کہتے جزیروں میں کہیں بہتے پُرانے ساحلوں پر گونجتے رہتے کسی مانجھی کے نغموں سے گلے مل کر پلٹتے ہیں تمہاری یاد کا صفحہ اُلٹتے ہیں ابھی کچھ رات باقی ہے تمہارا اور میرا ساتھ باقی ہے اندھیروں میں چھپا اک روشنی کا ہاتھ باقی ہے چلے آنا کہ ہم اُس آنے والی صبح کو اک ساتھ دیکھیں گے ۔ ©PK پرانے ساحلوں پر نیا گیت سلیم کوثر #نظم