درد ہی درد دیا کہ ہر درد مر گیا تیر اُسکی آنکھوں کا پار جگر کر گیا رکھتا ہوں مزاج میں بھی عشقیہ بہت بس زخمِ دل دیکھ کر وجود میرا ڈر گیا دل نے کہا اعتبار کرلو محبّت کا پھر ایک بار پھر عادتً محبّت سے دل میرا مکر گیا اے ناداں دل آخر کیوں بعض نہیں آتا ہے تو آکر محبت کے جال میں پھر غضب کر گیا کیا ہوا فقط وہی تو اک شخص نہیں دنیا میں نا جانے پھر کیوں آخر دل میرا بھر گیا اتنی بےرُخی کیوں رکھی تھی مجھ سے جانا جس حادثے کا ڈر تھا وہی آخر شخر گیا اک وہم جو ہم نے پال رکھا تھا پلکوں تلے پھر سے آج میرا ہر سپنا ٹوٹ کر بکھر گیا کیا رنج وملال تھا آخر تمہارے قلبِ ساف میں اک بار بھی نہ پوچھا جی رہا ہے یا مر گیا ہواؤں نے خبر دی مجھکو ہاتھ پیلے ہوئے اُسکے اگلی سحر بے وجہ وہ اشک میں گھر کر گیا چوٹیں بھی بہت کھائیں ستم بھی بہت سہے مگر اس زخم تلے دب کر زندگی کو ودا کر گیا اب تو منتظر ہوں بس اُسکی دید کا تنہا گر ہو جاۓ وہ نصیب سمجھو ہر زخم بھر گیا #شکایت و التجا