Nojoto: Largest Storytelling Platform
yasirstars9500
  • 125Stories
  • 51Followers
  • 1.2KLove
    7.0KViews

Yasir Sardar

Poet, Writer, Author☺

  • Popular
  • Latest
  • Video
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

White چلتی پھرتی لاشوں کو دیکھ کر  ہوں میں حیران بہت
 کسی  زمانے  میں   ہوتے  تھے   زمیں  پر  انسان  بہت 

ظلم کے بعد سجا لیتے ہیں جھوٹی مسکراہٹ
 ہر  ظالم   ہوتا   ہے  اندر   سے   ویران  بہت 

چہروں پر نقاب ہیں اور باتوں کے ہیں جال 
یہ   چالاک،   ہوتے   ہیں   اکثر   نادان  بہت 

  یوں  تو  ہر  چہرے  سے  آشنائی  ہے  اُسے
 کیا ستم ہے کہ وہ خود سے ہے انجان بہت 

بہت کچھ پانے کی جستجو میں عمر گنوا دی اُس نے 
اِس   منافع    نے   کیا    ہے   اُس   کا   نقصان    بہت 

دل  جل تو جاتے  ہیں باتوں کی  آگ سے لیکن
 جلانے  والوں  کا   بھی   جلتا  ہے   مکان   بہت

ڈوبنے  والے  کو  نظر  آتا  ہے تو  ہر  سمت خدایا 
مشکلات میں رہتا ہے تجھ سے تعلق اسان بہت

©Yasir Sardar #good_night
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

ظلم و جبر کی آگ سے میری سرزمین جل رہی ہے
ہر  درد  کی  داستان  آنسوؤں  میں  پل  رہی  ہے

ہر  وہ بڑا  جو  کر  رہا  ہے  چھوٹے  پر  ظلم
‏ ‏ہے بےخبر موت اُس کی جانب بھی چل رہی ہے
‏
دولت واختیار اور تُو خود بھی چند برس کا مہمان
‏گھڑی کو دیکھ  گھڑی ہر گھڑی وقت بدل رہی ہے
‏
جنہیں بنایا تھا بھروسے سے سرزمین کا نگہبان
اُن ہی کی آگ سے میری بستی جل رہی ہے
‏
عدالت جو بنی تھی میرے انصاف کے واسطے
‏ اُسی کے ظلم سے میری جان  نکل رہی ہے
‏
بندوق جو بنی تھی میری حفاظت کے لیے یاسر
اُس  کی  گولی اب  مجھ  ہی  پر  چل  رہی  ہے

©Yasir Sardar
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

اِس  کی  سوچوں  پر  بھی  اپنا  پہرا  بٹھا  دیجئے 
اگر   بول   رہا   ہے   تو   اِسے   گونگا    بنا   دیجئے 

غلاموں  کی  بستی  میں  یہ  کہاں سے  نکل  آیا  آزاد
 یہی    ہے     جرم     اِس    کا     اِسے    سزا    دیجئے

 قاضیِ وقت  کو  ملا  اپنے آقا  کا  ایک خط  اور ہدایات
 حضور میرا من پسند فیصلہ کل عدالت میں سنا دیجئے 

شعور  کی  کتاب  نے  اِسے  عطا  کر  دی  ہے  گویائی
 اگر  خاموش  نہ  ہو  تو  رستے  سے  ہی  ہٹا  دیجئے

 یہ وہی بولے جو ہم چاہیں وہی سوچے جو ہم چاہیں 
نیند   میں   پڑتا  ہے  خلل   اِس  کی  آواز  دبا  دیجئے 

اس کے بعد کوئی سر نہ کوئی آواز اٹھے حق کے لیے
 اِسے  عبرت   کا  نشاں   اور   ایک  مثال  بنا  دیجئے

 اندھوں   کی   بستی   کا   آئینہ   ہوں   میں   یاسر 
میں   عکس   ہوں   آپ  کا  میرا   نقش  مٹا  دیجئے

©Yasir Sardar
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

ہر گھر میں ہے ایک یزید  مسئلہ حل نہیں ہوتا
 ظلم جاری رہتا ہے  اور  کوئی عدل  نہیں ہوتا 

یہ زنگ آلود زبانیں بھی ہیں مثلِ دیمک زدہ شجر
 شاخیں  تو  موجود  ہیں  اِن  پر  پھل  نہیں  ہوتا

 دیواریں تو بنا لی مگر سر پر ہے وحشتوں کی چھت
 خوف و لالچ  قید  ہوں  جہاں  وہ  محل  نہیں  ہوتا 

یوں تو رابطے میں ہے مسلسل  پورے جہاں سے انساں 
کیا   ستم   ہے  خود   سے  رابطہ  مسلسل   نہیں   ہوتا 

پیدا    کرتا    ہے    وہ    ہر    دور   میں    کئی    فرعون 
بھیج نہ دے جب تک موسٰی کو  افسانہ مکمل نہیں ہوتا 

وقت دھوکہ ہے  اور ڈراتے ہیں اِس دھوکے سے  آج کل 
یاسر میں وہ" آج " ہوں جس کا کوئی " کَل" نہیں ہوتا

©Yasir Sardar #Aasmaan
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

White اس کی مرضی کے رنگ وہ دکھا نہیں رہا
 اِسی لیٔے آئینے سے وہ نظریں ملا نہیں رہا 

غرور و انا  کے بت اور لفظوں کے ہیں  تیر 
خود  گر  رہا  ہے  وہ  تجھے  گرا  نہیں  رہا 

نظر ہے دوسروں پر  اور  چالاکی ہے باتوں میں
وه انا پرست ظالم اپنی کوئی خطا بتا نہیں رہا 

شیشہ و سنگ کی تعمیر کر لی چند عمارتیں 
سینے میں دھڑکتے پتھر کو دل بنا نہیں رہا 

پہلے  بھی  گزرے  ہیں  کئی  فرعون  یہاں 
کوئی  بھی  شخص  یہاں   سدا  نہیں  رہا 

ہر   بڑا   کر   رہا   ہے   ہر  چھوٹے   پر   ظلم 
خدا موجود ہے مگر ابھی پردے ہٹا نہیں رہا 

کیا  ڈرائے  گا  ہمیں  کوئی  دنیاوی  خدا  یاسر
 اٌس ایک کے علاوہ کبھی میرا کوئی خدا نہیں رہا

©Yasir Sardar #Night
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

White ایک ذہہن ہے جو خیالات کی زد میں ہے 
ایک آنسو ہے جو جذبات کی زد میں ہے 

وقت چھین ہی لے گا چہرے کی رعناںٔی 
تیرا  روشن  دن اب  رات کی زد میں ہے 

عمر   بھر   جو   خدا   بن   کر   بولتا   رہا
کوئی بوڑھا ظالم اب مکافات کی زد میں ہے 

مغرور لہجہ اور زباں بھی تھی زنگ آلود
 دل  ہے  کہ  اُسی  بات  کی  زد  میں  ہے 

گھر ہوں یا گلیاں، سانپوں کا بسیرا ہے 
میرا   شہر  حادثات   کی  زد  میں  ہے 

چند ہاتھیوں میں یہ کرسی کی لڑائی ہے
  اور غریبِ شہر  حالات کی  زد  میں ہے 

کِسے  اپنا  کہا  جائے  اور کسے  بیگانہ 
ہر جواب نںٔے سوالات کی زد میں ہے

©Yasir Sardar #sunset_time
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

White تیرے ساتھ سے بڑھ کر حسیں تھی 
تیرے بعد جو ہم  نے گزاری ہے 

سب کچھ مل کر خوشی کھو گئی
 یہ بازی جیت کر تم نے ہاری ہے 

شاہ و فقیر سب کو روند ڈالا
 یہ وقت کی دوڑتی گاڑی ہے 

تیرنے کے بعد بھی ڈوبنا ہے مقدر
 زندگی خود موت کی سواری ہے 

جیون کو تولا پھر وقت کے ترازو میں
 ایک لمحہ انتظار سو سال پر بھاری ہے  

کسی طور بھی علاجِ مرض نہیں ممکن 
غرور  و  لالچ  لاعلاج  بیماری  ہے 

ہر چہرے پر موجود ہیں کتنے چہرے  
یاسر چاروں سمت باتوں کی فنکاری ہے

©Yasir Sardar #good_night
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

White  قید ہیں جن میں اُن سوچوں سے رہاںٔی ملے
 میں جس سمت دیکھوں تو ہی تو دکھائی ملے 

ایک دل کافی ہے جو ہو درد آشنا 
تمنا نہیں ہے کہ ساری خدائی ملے  

جسم پنجرا ہے اور دل ہے چابی 
جتنا ڈوبے کوئی اسے اتنی گہرائی ملے 

آئینے عکس دکھاتے ہیں اصل چہرہ نہیں 
اپنے اندر اترے کوئی تو شناسائی ملے 

سب سے مل کے بھی سب ہیں تنہا 
ہجوم میں جس سمت دیکھوں تنہائی ملے

سر کٹے جھکے  نہیں ظلم کے اگے 
پھر چائے عزت ملے یا رسوائی ملے   

تو خود کو ڈھونڈ کر خدا تک پہنچے 
یاسر تجھ گنہگار کو بھی پارسائی ملے

©Yasir Sardar #Road
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

دریا تو دیکھے ہیں سمندر نہیں دیکھا
تم نے جھانک کر کبھی اپنے اندر نہیں دیکھا

سب کچھ مل کر بھی خواب رہے ادھورے
‏تم نے فقیر تو دیکھے ہیں سکندر نہیں دیکھا
‏
آسماں چیخ رہا ہے دیکھ کر  حیوانیت
‏زمیں نےاِس سے پہلے ایسا منظر نہیں دیکھا
‏
بولیں فرش پر تو صدا جاتی ہے عرش تک
تم نے شاہ دیکھے ہیں قلندر نہیں دیکھا

صبح و شام کرتا رہتا ہے خود ہی پر ظلم
‏انساں سے بڑھ کر کوئی ستمگر نہیں دیکھا

اٹھا ہے آج پھر میری خاموشی پر سوال
‏شاید کے یاسر اُس نے سمندر نہیں دیکھا

©Yasir Sardar #Walk
342e9d6ae0b2c0aa0bad5d137b287840

Yasir Sardar

ہر زخم کا مرہم نہیں ہوتا
 ہر غم کی دوا نہیں ہوتی 

انسان ہی انسان کو کاٹتا ہے
 ورنہ زندگی تو سزا نہیں ہوتی 

چند لمحوں کا ہوتا ہے عروج 
خدائی تو سدا نہیں ہوتی 

سوچوں کے سمندر یادوں کے کارواں 
تنہائی بھی میرے ساتھ تنہا نہیں ہوتی 

ایک چادر چھپا لیتی ہے  ہزار غم 
مسکراہٹ لبوں سے خفا نہیں ہوتی 

ظلم کر کے بن جاتے ہیں مظلوم 
قبول ایسے لوگوں کی دعا نہیں ہوتی 

جنگ رہتی ہے دل و دماغ کے درمیاں 
جب تک سانسیں دھڑکن سے جدا نہیں ہوتی

©Yasir Sardar
loader
Home
Explore
Events
Notification
Profile