غزل کر نہیں رہا کوئی بھی کلام ابھی ہونٹوں سے لگے ہوئے ہیں جام ابھی بڑی تھكن ہے آنکھوں میں بسی ہوئی اے پیکر حسن! کرنے دے آرام ابھی دل بے قرار ہو اُٹھا آج پھر سے پکارا ہو جیسے کسی نے میرا نام ابھی دن امید کی کوئی نئی کرن لے آیا ڈھل گئی کچھ دیر غم کی شام ابھی ہونٹوں کو نہ دی ہم نے زہمت کلام یوں آنکھوں سے کر گئے کلام ابھی يوسف بھی میسر ہے بازار میں لیکن چکا ہی نہیں پا رہا کوئی دام ابھی دل کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں بیجھا ہے اُس نے اک پیغام ابھی ٹھہرایا گیا دل توڑنے کا قصوروار مجھے ہٹا نہیں میرے سر سے الزام ابھی -Kalaam rahi ©Kalaam rahi