بعد میں مجھ سے نہ کہنا گھر پلٹنا ٹھیک ہے ویسے سننے میں یہی آیا ہے رستہ ٹھیک ہے اس جہان ِخاک میں ہر شے کو ہے آخر زوال اس کا مطلب سوکھ جاتا ہے تو دریا ٹھیک ہے ذہن تک تسلیم کر لیتا ہے اُس کی برتری آنکھ تک تصدیق کر دیتی ہے بندہ ٹھیک ہے شاخ سے پتا گرے، بارش رکے، بادل چھٹیں میں ہی تو سب کچھ غلط کرتا ہوں اچھا ٹھیک ہے اُس کے آنسو قبر تک پیچھا نہ چھوڑیں گے مرا میں اگر مر جاؤں اُس کا دھیان رکھنا، ٹھیک ہے؟ اک تری آواز سننے کے لیے زندہ ہیں ہم تو ہی جب خاموش ہو جائے تو پھر کیا ٹھیک ہے